سوال: حضرت عرض خدمت یہ ھے کہ ھاتھ میں یا پیر میں دھاگہ وغیرہ باندھنے کا شریعت میں کیا حکم ہے دلیل کے ساتھ جواب عنایت فرمائیں بڑی مھربانی ھوگی فقط والسلام الـمـسـتفتی؛ محمد نصیر رضا قادری" شیواجی نگر گونڈی ممبئی
وعلیکم السلام ورحمة ﷲ وبركاته
الجوابـــــــــــــــــ بعون الملک الوھاب
ہاتھ یا پاؤں میں دھاگا باندھنے کا شریعت میں حکم یہ ہے کہ، اگر کسی مقصد کیلئے مثلاً کسی چیز کو یاد رکھنے کیلئے پہنا تو جائز ہے۔ اور اگر بغیر کسی غرض صحیح کے باندھا تو عبث و مکروہ ہے۔ چنانچہ مجمع الانھر میں ہے کہ:"(والرتم) وهو الخيط الذي يعقد على الأصبع لتذكر الشيء (لا بأس به) ؛ لأنه ليس بعبث لما فيه من الغرض الصحيح وهو التذكر عند النسيان أما شد الخيوط والسلاسل على بعض الأعضاء فإنه مكروه لكونه عبثا محضا أو حاصله أن كل ما فعل على وجه التجبر فهو مكروه وبدعة وما فعله لحاجة وضرورة لا يكره وهما نظير التربع في الجلوس والاتكاء"
ترجمہ: یعنی، رتم یعنی وہ دھاگا جو کسی چیز کو یاد رکھنے کے لیے باندھا اس میں حرج نہیں ؛ کیونکہ یہ عبث نہیں کہ اس میں غرض صحیح ہے اور وہ یہ کہ بھول جانے پر یاد آجائے، بہر حال بعض اعضا میں دھاگے اور زنجیریں باندھنا تو وہ مکروہ ہے کہ وہ عبث محض ہے یا اس کا حاصل یہ ہے کہ ہر وہ فعل جو تکبر کے طور پر ہوتو وہ مکروہ و بدعت ہے اور جو کسی حاجت و ضرورت کی وجہ سے ہو وہ مکروہ نہیں اور یہ دونوں بیٹھنے میں تربع (چار زانوں بیٹھنے ) اور تکیہ لگانے کی مثل ہیں ۔ ( مجمع الانھر كتاب الكراهية الجزء الرابح فصل فی اللبس صفحہ (١٩٩) المكتبة دار الكتب العلمیہ بیروت لبنان )
اور حضور صدر الشریعہ بدر الطریقہ حضرت علامہ مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ الرحمۃ والرضوان تحریر فرماتے ہیں کہ۔ یادداشت کے لئے یعنی اس غرض سے کہ بات یاد رہے بعض لوگ رومال یا کمر بند میں گرہ لگا لیتے ہیں یا کسی جگہ انگلی وغیرہ پر ڈورا باندھ لیتے ہیں، یہ جائز ہے اور بلاوجہ ڈورا باندھ لینا مکروہ ہے؛ ( بہار شریعت جلد سوم (۳) حصّہ شانزدہم (۱۶) عمامہ کا بیان، صفحہ (۴۱۹) المکتبۃ المدینہ دعوت اسلامی )
واللّٰہ تعالیٰ اعلم بالصواب
محمد ارباز عالم نظامى تركپٹى كورىاں كشى نگر ىوپى الهند : مقىم حال بريده القصىم سعودي عربية
0 Comments
ایک تبصرہ شائع کریں