السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علماۓ کرام اس مسٸلہ کے بارے میں کی مرحوم کے نام سے قربانی کرنا کیسا ہے جواب عنایت فرماٸیں؟ ســـائل؛ محـمـد تصــدق حسـین نیپـال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ
بســـم اللــہ الرحمٰـــن الرحیــم
الجــوابـــــــ بعون الملک الوھاب
مرحوم کے نام سے قربانی کرنا۔۔ جاٸز ودرست ہے شرعا کوٸ قباحت نہیں۔
جیساکہ فتاوی مرکز تربیت افتا ٕ میں ہے کہ میت کے نام سے قربانی کرنا جائز و درست ہے اور اس گوشت کا بھی وہی حکم ہے کہ خود کھائے اور دوست و احباب کو دیں اور فقیروں کو بھی دیں یہ ضروری نہیں کہ سارا گوشت فقیروں کو ہی دیں۔۔
ہاں اگر میت نے یہ وصیت کی ہو تو اس میں سے نہ کھاۓ بلکہ کل گوشت صدقہ کر دے
حدیث شریف میں ہے کہ " عن حنش قال رایت علیا رضی اللہ تعالیٰ عنہ یضحی بکمشین فقلت لہ ما ھذا قال ان رسول اللہ ﷺ او صانی ان اضحی عنہ فأنأ اضحی عنہ
حضرت حنش سے مروی ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ دو مینڈھے کی قربانی کرتے ہیں میں نے کہا یہ کیا ؟انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے وصیت فرمائی کہ میں حضور ﷺ کی طرف سے قربانی کروں, لھذا میں حضور ﷺ کی طرف سے قربانی کرتا ہوں (السنن لابی داؤد جلد ٢ صفحہ ٣٨٥ باب الاضحیۃ عن المیت)
اور ردالمحتار کتاب الاضحیۃ میں ہے قال فی البدائع لان الموت لا یمنع التقرب عن المیت بدلیل انہ یجوز ان یتصدق عنہ ویحج عنہ وقد صح ان رسول اللہ ﷺ ضحی بکمشین احدھما عن نفسہ والأخر عمن لم یذبح من امتہ- اھ (ردالمحتار جلد ٦ صفحہ ٣٢٦"اور فتاویٰ بزازیہ کتاب الاضحیۃ میں ہے
المختار انہ ان ضحی با مرالمیت لا یأکل منھا وان بغیر امرہ یأکل اھ- (فتـاویٰ بزازیہ جلد٦ صفحہ٢٩٥) (فتاوی مرکز تربیت افتاءجلد دوم صفحہ ٣١٨ باب الاضحیۃ فقیـہ ملت اکیڈمی اوجـھا گنج بستـی)
واللہ تعالی اعلم بالصواب
کتبہ؛ حــافـــظ مــحـمـد اربــاز عــالـم نظــــامی ترکپٹـــــی کـــوریــاں کشـــی نگـــر یــــوپــی الھـــــند
0 Comments
ایک تبصرہ شائع کریں