السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام و مفتیان عظام اس مسئلہ کے بارے میں کہ جھوٹی قسم کھانے والے پر شریعت کا کیا حکم ہے سائل غلام احمد رضا گـونڈہ (یوپی)

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ
الجــوابــــ بعون الملک الوھاب
 جھوٹی قسم کھانا۔ ناجائز و حرام اور یہ سخت گناہ کا کام ہے اس کی شدید مذمت احادیث مبارکہ میں بیان ہوئی ہے۔ لہٰذا جھوٹی قسم کھانے والے پر شریعت کا حکم یہ ہے کہ،وہ صدق دل سے اللہ تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ میں توبہ کرے اور آئندہ اس گناہ سے باز رہے۔ لیکن کوئی کفارہ لازم نہیں آئے گا۔ 

جھوٹی قسم کی مذمت پر صحیح بُخاری  کی حدیثِ پاک میں ہے عن عبد الله بن عمرو : عن النبي صلى الله عليه و سلم قال "الكباآر الإشراك بالله وعقوق الوالدين وقتل النفس واليمين الغموس" ترجمہ یعنی، حضرتِ عبد اللہ بن عمرو سے روایت ہے کہ سرکار صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ  اللہ عزوجل کے ساتھ شرک  کرنا،والدین کی نافرمانی کرنا ، کسی جان کو قتل کرنا اورجُھوٹی قسم کھانا کبیرہ  گناہ ہیں ، (صحیح البخاری جلد ہشتم (۸) قسموں اور نذروں بیان صفحہ (۱۰۱) مکتبہ مرکزی جمیعت اہل حدیث ہند)

اور حضور اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان محقق بریلوی علیہ الرحمۃ والرضوان جھوٹی قسم کے حوالے سے ایک مقام پر ارشاد فرماتے ہیں۔ جھوٹی قسم گزَشتہ بات پر دانِستہ ،اس کا کوئی کفارہ نہیں ، اس کی سزا یہ ہے کہ جہنَّم کے کَھولتے دریا میں  غَوطے دیاجائے گا۔ (فتاوی رضویہ شریف جلد سیزدہم (١٣) باب الكفاره، صفحہ (۶۱۱) مکتبہ رضا فاؤنڈیشن لاہور)

اور حضور صدر الشریعہ بدر الطریقہ حضرت علامہ مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ الرحمۃ والرضوان، تحریر فرماتے ہیں کہ ، قسم کی تین قسم ہے (۱) غموس (۲) لغو۔(۳) منعقدہ جان بوجھ کر جھوٹی قسم کھائی یعنی مثلاً جس کے آنے کی نسبت جھوٹی قسم کھائی تھی یہ خود بھی جانتا ہے کہ نہیں آیاہے تو ایسی قسم کو غموس کہتے ہیں۔۔ غموس میں سخت گنہگار ہوا استغفار و توبہ فرض ہے مگر کفارہ لازم نہیں (بہار شریعت جلد دوم (٢) حصّہ نہم (٩) ، صفحہ (٢٩٨ تا، ۲۹۹) قسم کا بیان، المکتبۃ المدینہ دعوت اسلامی)

واللہ اعلم باالصواب
کتبہ؛ فقیـر محمد اربـاز عـالـم نظامى صـاحـب قبـلـہ تركپٹى كوریاں كشى نگر ىوپى الهند مقىم حال برىده القصىم سعودي عربية