السلام علیکم رحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ مرحوم کے نام سے قربانی کرنا کیسا ہے، دو بکرے کی ضرورت ہوتی ہے یا  ایک میں ہی ہو جاتی ہے عوام الناس میں رائج ہے کہ دو بکرے کا ہونا ضروری ہے ایک سرکار کے نام سے ایک مرحوم کے نام سے۔  جواب عنایت فرمائیں مہربانی ہوگی؟ ســـائل اســـد رضــا ممبئـی


وعلیکم السلام ورحمۃاللہ وبرکاتہ
بسـم اللـہ الرحمٰـن الرحیـم
الجــوابــــ بعون الملک الوہاب
مرحوم کے نام سے قربانی کرنا ثابت و جائز ہے، اس میں ایک ہی بکرا کافی ہے لوگوں کا یہ کہنا کہ دو بکرے ایک مرحوم کا ایک حضور کا ضرور ہونا چاہیے شرعاً ثابت نہیں یہ عوام کی خام خیالی و لا علمی اور غلط بات ہے۔ اگر استطاعت رکھتا ہو تو حضور کی طرف سے کرنا بھی مستحسن ہے ثواب ہوگا، ہاں یہ ضروری ہیکہ صاحب نصاب اپنے اوپر واجب ہونے والی قربانی بھی کرے اگر اورں کی طرف سے کی اپنی نہ کی تو ترک واجب کے سبب کنہگار ہوگا۔

حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کی طرف سے قربانی کی اور فرمایا عمن لم یضح من امتی،

 حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے دو قربانیاں کیں دریافت کرنے پر فرمایا ایک حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اور ایک اپنی طرف سے۔

حضرت حنش سے مروی ہے: رأیت علیا یضح بکبشین فقلت له ماھذا فقال ان رسول الل صلی الله علیہ وسلم اوصانی ان اضحی عنه فانا اضحی عنه۔ (ابو داؤد و ترمذی)

بدائع الصنائع میں ہے: ان الموت لایمنع التقرب عن المیت بدلیل انه یجوز ان یتصدق عنه ویحج عنه وقد صح ان رسول الله صلی الله علیه وسلم ضحی بکبشین احدھما عن نفسه والاخر عمن لا یذبح من امته وان کان منهم من قدمات قبل ان یذبح فدل ان المیت یجوز ان یتقرب عنه فاذا ذبح عنه صار نصیبه للقربة

میت کی طرف سے حصول تقرب کو موت ختم نہیں کردیتی اس پر دلیل ہیکہ میت کی طرف سے صدقہ کرنا اور میت کی طرف سے حج کرنا جائز ہے اور صحیح حدیث میں ہیکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو مینڈھے کی قربانی کی ایک اپنی طرف سے اور دوسرا اپنے ان امتیوں کی طرف سے جو قربانی دینے کی استطاعت نہیں رکھتے اگرچہ ان میں سے کچھ وہ حضرات بھی تھے جنکا انتقال ذبح سے پہلے ہوچکا تھا۔ یہ حدیث اس بات کی دلیل ہیکہ میت کی طرف سے تقرب جائز ہے لہذا اگر میت کی طرف سے ذبح کیا جائے تو قربت "ثواب" میں اسکا بھی حصہ ہوگا۔ (فتاوی امجدیہ. ج ٣..ص ٣٢٤، قادری کتاب گھر بریلی شریف)

فقیہ ملت مفتی جلال الدین احمد امجدی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: اگر کوئی صاحب نصاب اپنی طرف سے قربانی کرنے کے بجائے دوسرے کی طرف سے کردے اور اپنے نام سے نہ کرے تو سخت گنہگار ہوگا لہذا اگر دوسرے کی طرف سے بھی کرنا چاہتا ہے تو اسکے لئے ایک دوسری قربانی کا انتظام کرے۔(انوار الحدیث قربانی کا بیان)

 مجدد دین و ملت اعلیٰ حضرت محدث بریلوی رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں: جن پر قربانی واجب تھی اور نہ کی کہ ایام نحر گزر گئے تو گنہگار ہوئے۔ ملخصا (فتاویٰ رضویہ قدیم قربانى كا بيان جلد..٨، رضا اکیڈمی ممبئی)

واللہ تعالی اعلم بالصواب
کتبـــــہ؛ خـاک پائے علمـاء
ابـو فرحــان مشتـاق احمد رضوی صاحب قبلہ مدظلہ العالی والنورانی جامع رضویہ فیض القرآن سلیم پور نزد کلیر شریف اتراکھنڈ

✅الجـــواب صحیح والمجیبـــ نجیح
فقیر محمد عمر خان مسعودی