السَّلَام علیکم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُہ 
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسٔلہ میں کہ ذی الحج کے پہلے عشرے میں بال ناخن وغیرہ بعض لوگ نہیں کاٹتے اور کہتے ہیں اسطرح کرنے سے قربانی کرنے کے برابر اجر ہے شریعت مطہرہ کی روشنی میں رہنماٸ فرمائیں؟ ســــائل تیمـــور سیــالوی


وعلیکم السلام ورحمۃاللہ وبرکاتہ
بسـم اللــہ الرحمٰـن الرحیم
الجــوابـــــــــــ بعون التواب
عشرۂ ذی الحج میں ابتدا تا قربانی ناخن بال وغیرہ نہ کاٹنے میں اصل یہ ہیکہ یہ حکم فرض یا واجب نہیں صرف استحبابی ہے جو لوگ قربانی کرنے والے ہیں وہ اور جو نہیں کرنے والے ان سب  کیلئے اس مدت میں رکے رہنا باعث اجرو ثواب ہے،

 حدیثِ مبارکہ میں ہے: جو لوگ قربانی نہیں کرسکتے انہیں فرمایا تم قربانی کے دنوں میں اپنے بال، ناخن اور مونچھیں اور موئے زیر ناف ترشواؤ تمہیں اسی میں قربانی کا ثواب حاصل ہوجائیگا۔ (بہار شریعت حصہ١٥...ص ١٣١، فاروقیہ بکڈپو دہلی)

نیز مسلم  میں ہے حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اذا رأیتم ھلال ذالحجة واراد احدکم ان یضحی فلیمسك عن شعرہ واظفارہ جب تم ذی الحجہ کا چاند دیکھو اور تم میں کوئی قربانی کرنا چاہے تو اسکو چاہیئے کہ بال اور ناخنوں کے ترشوانے سے رکا رہے۔ (مسلم شریف ج ٢...ص ١٦٠، كتاب الاضاحى)

معلوم ہوا کہ لوگوں کا عشرۂ ذی الحجہ میں ان امور سے رکے رہنے پر اجرو ثواب کی امید رکھنا اور کہنا درست ہے مگر اس شرط کے ساتھ کہ ایام منہیہ میں بال ناخن وغیرہ کاٹے ہوئے چالیس دن کی مدت نہ گزر گئی ہو، اگر درمیان عشرہ ہی میں کسی کے بال ناخن وغیرہ کٹے ہوئے چالیس دن پورے ہوگئے تو اب وہ قربانی کا انتظار نہ کریگا بلکہ جبھی کاٹنا ضروری ہوگا ورنہ گنہگار ہوگا۔ 

حدیثِ مبارکہ میں ہے: عن انس قال وقت لنا فی قص الشوارب وتقلیم الاظفار ونتف الابط وحلق العانة ان لا نترك من اربعین لیلة۔حضرت انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ مونچھیں کاٹنے، بال تراشنے، بغل کے بال اکھیڑنے اور موئے زیر ناف مونڈنے میں ہمارے لئے وقت مقرر کیا گیا ہے کہ ہم چالیس دن سے زیادہ نہ چھوڑیں یعنی چالیس دن کے اندر ہی اندر ان کاموں کو ضرور کرلیں۔ (مسلم شریف باب خصال الفطرۃ) 

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان بریلوی رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں:اگر کسی شخص نے( ٣١ ) دن سے کسی عذر یا بلا عذ ر ناخن نہ تراشے ہوں ، نہ خط بنوایا ہو ، کہ ذی الحجہ کاچاند ہوگیا ، تو وہ اگرچہ قربانی کا ارادہ رکھتا ہو، اس مستحب پرعمل نہیں کرسکتا کہ اب دسویں تک رکھے گا تو ناخن وخط بنوائے ہوئے اکتالیسواں دن ہوجائیگا، اور چالیس دن سے زیادہ ناخن  وغیرہ نہ کٹوانا گناہ ہے ، فعل مستحب کیلئے گناہ کی اجازت نہیں، فی ردالمحتار فی شرح المنیة فى المضمرات، عن ابن المبارك فى تقليم الاظفار وحلق الرأس فى عشر ذى الحجة ، قال لا تؤخر السنة ، وقد ورد ذالك ولايجب التاخير اھ فھذا محمول علی الندب بالاجماع الا ان نفی الوجوب  لا ینافی الاستحباب، فيكون مستحبا الا ان استلزم الزىادة على وقت اباحة التاخير ، ونهايته مادون الاربعين فلا يباح فوقها۔{فتاویٰ رضویہ جدید.٨ .ص ٣٥٧}

بحر الرائق میں ہے: وترک المستحب لایوجب کراھۃ التنزیہ۔  لا یلزم من ترک المستحب ثبوت الکراھۃ اذ لا بد لھا من دلیل الخاص {بحرالرائق  ج۔ ٢ص۔١٦٣}

کتبـــــہ؛ خـاک پائے علمــاء
ابـو فرحــان مشتـاق احمد رضوی