اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ
کیا فرماتے ہیں مفتیان عظام اس مسئلہ کے بارے میں کہ زید کہتا ہے کہ فضیلت کے باب میں موضوع روایات مقبول ہوتے ہیں جواب عنایت فرمائیں مہربانی ہوگی؟ ســـائل جمــال الـدین مقام مہراج گنـج
وَعَلَيْكُم السَّلَام وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ
بسـم اللـہ الرحـمٰن الرحـیم
الجــوابـــــــــــ بعون الملک الوہاب
زید کا قول غلط ہے - شاید زید کو اشتباہ ہوا ہے اور اس نے ضعیف حدیث" کے بجائے موضوع حدیث" کہہ دیا- ضعیف حدیث فضائل میں معتبرہے- جب کہ حدیث موضوع کسی بھی حال میں قابل عمل نہیں اگرچہ اس کا تعلق فضائل اعمال سے ہو -
کیونکہ حدیث موضوع اس حدیث کو کہتے ہیں جس کی کوئی اصل نہیں بلکہ وہ من گھڑت، بناؤٹی ، جھوٹی ہو- جھوٹی حدیث گڑھنے والا جہنمی ہے -
جیسا حدیث شریف میں ہے: " سمعت ربعی بن حراش یقول سمعت علیا یقول قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم لا تکذبوا علی فانہ من کذب علی فلیلج النار-"(بخاری جلد اول باب اثم من کذب علی النبی) یعنی "حضرت ربعی بن حراش رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا مجھ پر جھوٹ مت باندھو..! کیونکہ جو مجھ پر جھوٹ باندھے گا وہ ضرور جہنم میں داخل ہوگا-"
اس حدیث کی بعض روایتوں میں " متعمدا" کا بھی لفظ آیا ہے یعنی جو قصداً جان بوجھ کر حضور سرکار مصطفیٰ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم پر جھوٹ بولے گا وہ جہنمی ہے-
حضور نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم پر جھوٹ باندھنے کا گناہ کسی دوسرے آدمی پر جھوٹ باندھنے سے بدرجہا بڑھ کر بڑا گناہ ہے - اسی لئے صحابۂ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین اس گناہ سے اس قدر ڈرتے تھے کہ جب تک ان کو کسی حدیث کے بارے میں بالکل قطعی اور یقینی علم نہیں ہو جاتا تھا ہرگز ہرگز اس حدیث کو کبھی اپنی زبان پر نہیں لاتے تھے- جھوٹی حدیثوں کو گڑھنے والوں کو سلطان اسلام بطور تعزیر کوڑوں کی مار ، یاقید، یاقتل کی سزا دے گا - ( ماخذ : نوادرالحدیث صفحہ از ١١٨ تا ١٢٣) ضعیف حدیث فضائل اعمال میں معتبر ہوتی ہے-
جیسا کہ حضرت علامہ شامی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: " علی انہ فی فضائل الاعمال یجوز العمل بالحدیث الضعیف کما مر فی اول کتاب الطھارۃ -"(جاء الحق حصہ اول صفحہ ٣٨٣ بحوالہ ردالمحتار جلد اول باب الاذان -"
مطلب ..! فضائل اعمال میں ضعیف حدیث پر عمل کرنا جائز ہے - ہاں حرام و حلال کے مسائل اس سے جاری نہیں ہوں گے- یعنی احکام شریعت میں اس حدیث کا قطعاً دخل نہیں - اور فتاویٰ رضویہ شریف میں ہے:
" المنکر من قسم الضعیف و ھو محتمل فی الفضائل -"(فتاویٰ رضویہ شریف جلد ٥ صفحہ ٤٥٠ مطبوعہ جدید بحوالہ التعقبات علی الموضوعات )
تعدد طرق سے ضعیف حدیث قوت پاتی ہے بلکہ حسن ہو جاتی ہے ، حدیث اگر متعدد طریقوں سے روایت کی جائے اور وہ سب ضعیف رکھتے ہوں تو ضعیف ضعیف مل کر بھی قوت حاصل کر لیتے ہیں - ( حوالہ مذکور صفحہ ٤٧٢)
واللــہ تـعالیٰ اعلـم بالصــواب
کتبـــــہ؛ حضرت علامہ مولانا مفتی محمد جعفر علی صدیقی رضوی فیضی صاحب قبلہ مدظلہ العالی والنورانی کرلوسکرواڑی سانگلی (مہاراشٹر)
0 Comments
ایک تبصرہ شائع کریں