کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسںٔلہ کے بارے میں کہ قرآن خوانی کرکے پیسہ لینا کیسا ہے؟ سائل: ذیشان انصاری لدھیانہ
وَعَلَيْكُم السَّلَام وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ
بسـم اللـہ الرحـمٰن الرحـیم
الجــوابـــــــــ بعون الملک الوہاب
قرآنی خوانی کرنے کے بعد۔ جو رقم دی جاتی ہے۔ یا لی جاتی ہے اُسکی دو صورتیں ہیں۔ (۱) پہلی صورت یہ ہے کہ۔ اگر قرآن پڑھنے والے اور صاحب خانہ کے درمیان۔ قرآنی خوانی کے عوض میں کچھ لینا دینا طے ہوا ہے۔ یا زبانی طور پر کچھ طے نہیں ہوا ہے۔ لیکن قرآن خوانی کے عوض کچھ لینا دیناعام طور پر رائج ہے۔ جس کی وجہ سے قرآن شریف پڑھنے والے جانتے ہیں کہ۔ اس کے عوض کچھ نہ کچھ ضرور ملے گا۔ اور صاحب خانہ بھی جانتا ہے کہ۔ تلاوت قرآن کے عوض میں کچھ نہ کچھ دینا پڑے گا۔ تو یہ دونوں صورتیں۔ حرام و گناہ ہیں۔ کہ یہ تلاوت قرآن پر اجارہ کرنا ہے۔ جبکہ قرآن شریف۔ کی تلاوت پر اجارہ اور اُسکی اُجرت لینا اور دینا ناجائز ہے۔۔ (۲) دوسری صورت یہ ہے کہ نہ زبانی طور پراُجرت کی بات ہوئی ہے نہ ہی اس دی جانے والی چیز متعین ہے۔جیسا کہ عام طور پر کئی جگہوں پر میلاد شریف گیارہویں شریف وغیرہ یا بزرگان دین کے ایصال ثواب۔ یا گھر میں خیرو برکت کیلئے قرآن خوانی کروائی جاتی ہے۔ پھر کھانا شیرنی وغیرہ کا بھی انتظام ہوتا ہے۔ لیکن یہ انتظام و اہتمام تلاوت قرآن کے عوض نہیں۔ فقط ایصال ثواب و صدقہ وغیرہ کی نیت سے ہوتا ہے۔ پھر اس موقع پر سبھی لوگوں میں تقسیم کردیا جاتا ہے۔ لینے دینے والے سارے لوگ اس فاتحہ خوانی و تبرک کا کھانا سمجھتے ہیں۔ نہ کہ تلاوت قرآن کے عوض دیا اور لیا جانا سمجھتے ہیں۔ تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔بلکہ مستحب و مستحسن عمل ہے۔ یہ تلاوت قرآن کی اجرت نہیں۔
جیسا کہ حضور اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان محقق بریلوی علیہ الرحمۃ والرضوان تحریر فرماتے ہیں کہ۔ صل یہ ہے کہ طاعت و عبادات پر اجرت لینا دینا (سوائے تعلیمِ قرآن عظیم وعلومِ دین و اذان و امامت وغیرہا معدودے چند اشیاء کہ جن پر اجارہ کرنا متاخرین نے بناچاری و مجبوری بنظر حال زمانہ جائز رکھا )مطلقاً حرام ہے اور تلاوتِ قرآن عظیم بغرض ایصال ثواب ۔۔۔ ضرور من جملہ عبادات و طاعت ہیں ، تو ان پر اجارہ بھی ضرور حرام و محظور اور اجارہ جس طرح صریح عقد زبان سے ہوتا ہے،عرفاً شرط معروف ومعہود سے بھی ہوجاتا ہے ۔ مثلاً پڑھنے پڑھوانے والوں نے زبان سے کچھ نہ کہا ، مگر جانتے ہیں کہ دینا ہوگا ،وہ سمجھ رہے ہیں کہ کچھ ملے گا،انہوں نے اس طور پر پڑھا، انہوں نے اس نیت سے پڑھوایا، اجارہ ہوگیا اور اب دو وجہ سے حرام ہوا: ایک تو طاعت پر اجارہ یہ خود حرام ،دوسرے اجرت اگر عرفاً معین نہیں ، تو اس کی جہالت سے اجارہ فاسد ، یہ دوسرا حرام ۔ ای ان الاجارۃ باطلۃ و علی فرض الانعقاد فاسدۃ فللتحریم وجھان متعاقبان وذلک لما نصوا قاطبۃ ان المعھود عرفاً کالمشروط لفظاً۔ (یعنی حقیقت میں تو یہ اجارہ باطل ہے ، لیکن اگر منعقد فرض کرلیا جائے ، تو فاسد ہے ، تو یکے بعد دیگرے اس کے حرام ہونے کی دو وجہیں ہیں اور یہ اس لیے کہ تمام فقہاء کی نص ہے کہ عرف میں مشہور و مسلم لفظوں میں مشروط کی طرح ہے ۔پس اگر قرار داد کچھ نہ ہو ،نہ وہاں لین دین معہود ہوتا ہو ، تو بعد کو بطور صلہ و حسن سلوک کچھ دے دینا جائز بلکہ حسن ہوتا ،مگر جبکہ اس طریقہ کا وہاں عام رواج ہے،تو صورت ثانیہ میں داخل ہوکر حرام محض ہے ۔ (فتاوی رضویہ شریف جلد (۱۹) صفحہ ۴۸۶ تا/ ۴۸۷ مکتبہ، رضا فاؤنڈیشن لاہور)
اور تلاوت قرآن پر صراحۃً ،دلالۃً کسی طرح سے اجارہ نہ ہو ،محض صدقہ و صلہ کے طور پر کچھ لیا ،دیا جائے ، تویہ جائز ہے۔چنانچہ فتاوی اجملیہ میں ہے کہ، تلاوتِ قرآن کریم پر اجرت لینا اور دینا بالکل ناجائز ہے ۔ اسی طرح جس مقام کے عرف میں اس پر لیا دیا جاتا ہے ، تو حسبِ دستور تلاوت پر لینا اور دینا بھی ناجائز ہے، ہاں جہاں نہ ایسا عرف و رواج ہو ،نہ دینے والا اور نہ لینے والا بہ نیتِ اجرت لیتے ،دیتے ہوں ، تو وہاں صدقہ و صلہ ہے ،اس کے جواز میں کوئی شبہ نہیں ۔ (فتاوی اجملیہ ،جلد دوم (۲) باب الصدقات للمیت صفحہ (۶۲۰) مکتبہ ، شبیر برادرز اردو بازار لاہور)
قرآنی خوانی کرنے کے بعد۔ جو رقم دی جاتی ہے۔ یا لی جاتی ہے اُسکی دو صورتیں ہیں۔ (۱) پہلی صورت یہ ہے کہ۔ اگر قرآن پڑھنے والے اور صاحب خانہ کے درمیان۔ قرآنی خوانی کے عوض میں کچھ لینا دینا طے ہوا ہے۔ یا زبانی طور پر کچھ طے نہیں ہوا ہے۔ لیکن قرآن خوانی کے عوض کچھ لینا دیناعام طور پر رائج ہے۔ جس کی وجہ سے قرآن شریف پڑھنے والے جانتے ہیں کہ۔ اس کے عوض کچھ نہ کچھ ضرور ملے گا۔ اور صاحب خانہ بھی جانتا ہے کہ۔ تلاوت قرآن کے عوض میں کچھ نہ کچھ دینا پڑے گا۔ تو یہ دونوں صورتیں۔ حرام و گناہ ہیں۔ کہ یہ تلاوت قرآن پر اجارہ کرنا ہے۔ جبکہ قرآن شریف۔ کی تلاوت پر اجارہ اور اُسکی اُجرت لینا اور دینا ناجائز ہے۔۔ (۲) دوسری صورت یہ ہے کہ نہ زبانی طور پراُجرت کی بات ہوئی ہے نہ ہی اس دی جانے والی چیز متعین ہے۔جیسا کہ عام طور پر کئی جگہوں پر میلاد شریف گیارہویں شریف وغیرہ یا بزرگان دین کے ایصال ثواب۔ یا گھر میں خیرو برکت کیلئے قرآن خوانی کروائی جاتی ہے۔ پھر کھانا شیرنی وغیرہ کا بھی انتظام ہوتا ہے۔ لیکن یہ انتظام و اہتمام تلاوت قرآن کے عوض نہیں۔ فقط ایصال ثواب و صدقہ وغیرہ کی نیت سے ہوتا ہے۔ پھر اس موقع پر سبھی لوگوں میں تقسیم کردیا جاتا ہے۔ لینے دینے والے سارے لوگ اس فاتحہ خوانی و تبرک کا کھانا سمجھتے ہیں۔ نہ کہ تلاوت قرآن کے عوض دیا اور لیا جانا سمجھتے ہیں۔ تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔بلکہ مستحب و مستحسن عمل ہے۔ یہ تلاوت قرآن کی اجرت نہیں۔
جیسا کہ حضور اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان محقق بریلوی علیہ الرحمۃ والرضوان تحریر فرماتے ہیں کہ۔ صل یہ ہے کہ طاعت و عبادات پر اجرت لینا دینا (سوائے تعلیمِ قرآن عظیم وعلومِ دین و اذان و امامت وغیرہا معدودے چند اشیاء کہ جن پر اجارہ کرنا متاخرین نے بناچاری و مجبوری بنظر حال زمانہ جائز رکھا )مطلقاً حرام ہے اور تلاوتِ قرآن عظیم بغرض ایصال ثواب ۔۔۔ ضرور من جملہ عبادات و طاعت ہیں ، تو ان پر اجارہ بھی ضرور حرام و محظور اور اجارہ جس طرح صریح عقد زبان سے ہوتا ہے،عرفاً شرط معروف ومعہود سے بھی ہوجاتا ہے ۔ مثلاً پڑھنے پڑھوانے والوں نے زبان سے کچھ نہ کہا ، مگر جانتے ہیں کہ دینا ہوگا ،وہ سمجھ رہے ہیں کہ کچھ ملے گا،انہوں نے اس طور پر پڑھا، انہوں نے اس نیت سے پڑھوایا، اجارہ ہوگیا اور اب دو وجہ سے حرام ہوا: ایک تو طاعت پر اجارہ یہ خود حرام ،دوسرے اجرت اگر عرفاً معین نہیں ، تو اس کی جہالت سے اجارہ فاسد ، یہ دوسرا حرام ۔ ای ان الاجارۃ باطلۃ و علی فرض الانعقاد فاسدۃ فللتحریم وجھان متعاقبان وذلک لما نصوا قاطبۃ ان المعھود عرفاً کالمشروط لفظاً۔ (یعنی حقیقت میں تو یہ اجارہ باطل ہے ، لیکن اگر منعقد فرض کرلیا جائے ، تو فاسد ہے ، تو یکے بعد دیگرے اس کے حرام ہونے کی دو وجہیں ہیں اور یہ اس لیے کہ تمام فقہاء کی نص ہے کہ عرف میں مشہور و مسلم لفظوں میں مشروط کی طرح ہے ۔پس اگر قرار داد کچھ نہ ہو ،نہ وہاں لین دین معہود ہوتا ہو ، تو بعد کو بطور صلہ و حسن سلوک کچھ دے دینا جائز بلکہ حسن ہوتا ،مگر جبکہ اس طریقہ کا وہاں عام رواج ہے،تو صورت ثانیہ میں داخل ہوکر حرام محض ہے ۔ (فتاوی رضویہ شریف جلد (۱۹) صفحہ ۴۸۶ تا/ ۴۸۷ مکتبہ، رضا فاؤنڈیشن لاہور)
اور تلاوت قرآن پر صراحۃً ،دلالۃً کسی طرح سے اجارہ نہ ہو ،محض صدقہ و صلہ کے طور پر کچھ لیا ،دیا جائے ، تویہ جائز ہے۔چنانچہ فتاوی اجملیہ میں ہے کہ، تلاوتِ قرآن کریم پر اجرت لینا اور دینا بالکل ناجائز ہے ۔ اسی طرح جس مقام کے عرف میں اس پر لیا دیا جاتا ہے ، تو حسبِ دستور تلاوت پر لینا اور دینا بھی ناجائز ہے، ہاں جہاں نہ ایسا عرف و رواج ہو ،نہ دینے والا اور نہ لینے والا بہ نیتِ اجرت لیتے ،دیتے ہوں ، تو وہاں صدقہ و صلہ ہے ،اس کے جواز میں کوئی شبہ نہیں ۔ (فتاوی اجملیہ ،جلد دوم (۲) باب الصدقات للمیت صفحہ (۶۲۰) مکتبہ ، شبیر برادرز اردو بازار لاہور)
واللہ تعالی اعلم بالصواب
کتبـــــہ؛ محمد ارباز عالم نظــــــامی
ترکپٹی کوریاں کشی نگر یوپی الھـند
✅الجـــواب صحیح والمجیب نجیح
✅الجـــواب صحیح والمجیب نجیح
حضرت مولانا مفتی محمد سفیر الحق رضوی صاحب قبلہ مدظلہ العالی والنورانی استاد دار العلوم غریب نواز الہ آباد
0 Comments
ایک تبصرہ شائع کریں