کیا فرماتے ہیں علمائے کرام مسئلہ ذیل کے بارے میں جس طرح عورتیں مہندی لگاتی ہیں جیسے ہاتھ کی پوری ہتھیلی پر اور پاؤں کے چاروں طرف بیسوں ناخنوں پر اور ہاتھ پر پھول کی مانند اس طرح اگر کوئی مرد اپنے ہاتھ پیر میں مہندی لگا کر اپنی بارات لے کر جائے اس حالت میں اس کا نکاح ہو تو کیا نکاح جائز ہوگا یا نہیں ؟ شریعت کا کیا حکم ہے تفصیل سے مع حوالہ جواب عنایت فرمائیں مہربانی ہوگی؟ سائل دین محمد انصاری سنت کبیر نگر اترپردیش الہنـد.
وعلیکم السلام ور حمة الله وبركاته،
الجواب اللھم ہدایةالحق والصواب
صورت مستفسرہ میں مرد کو ہاتھ پاؤں میں مہندی لگانے کا سوال ہے حالانکہ حکم شرع تو یہ ہے کہ مرد کو صرف ناخن پر بھی مہندی لگانا ناجائز و حرام ہے تشبہ خواتین کی وجہ سے، جیسا کہ اعلٰی حضرت امام احمد رضا خان بریلوی رحمۃ اللہ علیہ نے تحریر فرمایا ہے :
مرد کو ہتھیلی یا تلوے بلکہ صرف ناخنوں ہی میں مہندی لگانی حرام ہے کہ عورتوں سے تشبّہ ہے ۔ شرعۃ الاسلام و مرقاۃ شرح مشکوٰۃ میں ہے:
الحناء سنّۃ للنساء و یکرہ لغیرھن من الرجال الا ان یکون لعذر لانہ تشبہ بھن۲؎ اھ اقول : و الکراھۃ تحریمیۃ للحدیث المار "لعن ﷲ المتشبھین من الرجال بالنساء" فصح التحریم ثم الاطلاق شمل الاظفار - اقول: و فیہ نص الحدیث المار، "لو کنت امرأۃ لغیرت اظفارک بالحناء ۱؎اما استثناء العذر فاقول ھذا اذا لم یقم شیئ مقامہ و لا صلح ترکیبہ مع شیئ ینفی لونہ و استعمل لا علی وجہ تقع بہ الزینۃ ۔
ترجمہ : مہندی لگانی عورتوں کے لئے سنت ہے لیکن مردوں کے لئے مکروہ ہے مگر جبکہ کوئی عذر ہو (تو پھر اس کے استعمال کرنے کی گنجائش ہے) اس کی وجہ یہ ہے کہ مردوں کے مہندی استعمال کرنے میں عورتوں سے مشابہت ہوگی، اقول: (میں کہتاہوں) کہ یہ کراہت تحریمی ہے گزشتہ حدیث پاک کی وجہ سے کہ جس میں یہ آیا ہے کہ "ﷲ تعالٰی نے ان مردوں پرلعنت فرمائی جو عورتوں سے مشابہت اختیارکریں" لہٰذا تحریم یعنی کراہت تحریمی صحیح ہوئی۔ اور اطلاق (الفاظ حدیث) ناخنوں کوبھی شامل ہے۔ اقول: (میں کہتاہوں) اس میں بھی گزشتہ حدیث کی صراحت موجود ہے (حدیث: " اگر تُو عورت ہوتی تو ضرور اپنے سفید ناخنوں کو مہندی لگاکر تبدیل کردیتی") رہا عذر کا استثناء کرنا، تو اس کے متعلق میری صوابدید یہ ہے کہ (عذر اس وقت تسلیم کیاجائے گا کہ) جب مہندی کے قائم مقام کوئی دوسری چیزنہ ہو، نیز مہندی کسی ایسی دوسری چیز کے ساتھ مخلوط نہ ہوسکے جو اس کے رنگ کوزائل کردے۔ اور مہندی کے استعمال میں بھی محض ضرورت کی بنا پر بطور دوا اور علاج ہو ، زیب و زینت اور آرائش مقصود نہ ہو
(بحوالہ) مرقاۃ المفاتیح شرح المشکوٰۃ، کتاب اللباس حدیث ۴۴۲۸ ،المکتبۃ الحبیبیہ کوئٹہ، ۸/ ۲۱۷
فتاویٰ رضویہ جدید ،کتاب الحظر والإباحۃ ،جلد ٢٤ ،صفحہ نمبر ٥٤٣
لہذا معلوم ہوا کہ صورتِ مذکورہ فی السؤال یعنی دولہا کی سجاوٹ بلا عذر محض زینت کے لئے ہوتی ہے جو شرعا حرام ہے جو ضرورت شرعی نہیں بلکہ ممنوعِ شرعی ہے ، پس جب مرد کو بے ضرورت مہندی لگانا حرام ہے تو شخص مذکور توبہ و استغفار کرے اور دوبارہ مہندی نہ لگانے کا عہد کرے؛ لیکن ایسی صورت میں نکاح ہوا تو درست ہوگا کیوں کہ مہندی لگانا یہ مانع نکاح نہیں
هذا ما ظهر لي و الله سبحانه وتعالى أعلم بالصواب
کتبـــہ؛ محــــمد معصــوم رضا نوری مقیم حال منگلور کرناٹک انڈیا ۱۹ ربیع النور شریف ۱۴۴۱ھ ۱۷نومبر ۲۰۱۹ء بروز اتوار
0 Comments
ایک تبصرہ شائع کریں