کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسٔلہ میں کہ عقد نکاح ویڈیو کال کے ذریعے منعقد ہوگا کیا،؟اسکا شرعی حکم بیان فرمائیں،؟ ســــائل شفیـق الرحمـن بہـرائچ شریف یوپی الہند
وعلیکم السلام ورحمۃاللہ وبرکاتہ
بسـم اللـہ الرحمٰن الرحیم
الجــوابـــــــــــ بعون الملک الوہاب
موجودہ دور میں ویڈیو کالنگ کے ذریعے نکاح کے انعقاد کی جو صورت اختیار کی جاتی ہے اس میں مجلس کی شرط مفقود ہوتی ہے؛ کیوں کہ شرعاً نہ تو یہ صورت حقیقتا مجلس کے حکم میں ہے اور نہ ہی حکما، کیوں کہ وہ ایک مجلس ہی نہیں ہوتی، بلکہ فریقین دو مختلف جگہوں پر ہوتے ہیں، جب کہ ایجاب و قبول کے لیے عاقدین کی مجلس ایک ہونا ضروری ہے۔ لہذا ویڈیو کالنگ کے ذریعے نکاح منعقد کرنا درست نہیں , وفی الدر المختار مع الرد المحتار "ومن شرائط الإیجاب والقبول اتحاد المجلس لوحاضرین۔
(قوله: اتحاد المجلس) قال في البحر: فلو اختلف المجلس لم ینعقد، فلو أوجب أحدهما فقام الآخر أو اشتغل بعمل آخر، بطل الإیجاب، لأن شرط الارتباط اتحاد الزمان، فجعل المجلس جامعا تیسیرا" ( کتاب النکاح،ج٣،ص١٤ )
اعلی حضرت امام احمد رضا قدس سرہ العزیز تحریر فرماتے ہیں، اور کوئی ایجاب مجلس سے باہر قبول پر موقوف نہیں رہ سکتا۔کما نصوا علیہ فی عامۃ الکتب وفی النھر والدر من شرائط الایجاب والقبول اتحاد المجلس” (فتاوی رضویہ ج۵ص١١٣)
ثانیا:- نکاح کے لیے دو ایسے گواہوں کا ہونا ضروری ہے جو دونوں ہی ایجاب وقبول دونوں کے گواہ ہوں ، جب کہ ویڈیو کالنگ کے ذریعہ نکاح میں ایجاب اور قبول کے گواہ الگ الگ ہوتے ہیں اور یہاں ایجاب والی مجلس کا گواہ، قبول والی مجلس کا شرعی گواہ نہیں ہوتاہے ۔ یوں ہی قبول کی مجلس کا گواہ ایجاب کی مجلس کا گواہ نہیں ہوتا ہے کیوں کہ نکاح کی گواہی کے لیے ایجاب وقبول کرنے والوں کی بات سننے کے ساتھ ان کو دیکھنا بھی ضروری ہے جب کہ ویڈیو کالنگ والی صورت میں مجلس ایجاب کا گواہ ،اصل قبول کرنے والے کو نہیں دیکھتا ہے ، بلکہ اس کی شبیہ یا صورت کو دیکھتا ہے۔ یوں ہی مجلس قبول کا گواہ، اصل ایجاب کرنے والے کو نہیں دیکھتا ہے بلکہ اس کی شبیہ یا صورت کو دیکھتا ہے ۔
بہار شریعت میں ہے۔تحمل یعنی معاملہ کے گواہ بننے کے لیے تین شرطیں ہیں۔ (۱) بوقت تحمل عاقل ہونا، (۲) انکھیارا ہونا، (۳) جس چیز کا گواہ بنے اس کا مشاہدہ کرنا- (بہار شریعت حصہ ١٢ص ٩٤٢ دعوت اسلامی )
جو چیز دیکھنے کی ہے اسے آنکھ سے دیکھا اور جو چیز سننے کی ہے اسے اپنے کان سے سنا مگر جس سے سنا اس کو بھی آنکھ سے دیکھا ہو تو گواہی دینا جائز ہے ۔ اگرچہ پردہ کی آڑ سے دیکھا ہو کہ اس نے دیکھا اور اس نے نہ دیکھا” (بہارشریعت حصہ ١٢ص٩٣٧ دعوت اسلامی )
ظاہر ہےیہاں 'مشاہدہ' اور 'پردہ کی آڑ سے دیکھنے' سے مراد اصل بولنے والے کو دیکھنا ہے نہ کہ اس کی صورت وشبیہ کو دیکھنا،ویڈیو کالنگ یا فون کے ذریعے نکاح صرف بطور توکیل ہی صحیح ہے ورنہ دونوں صورتوں میں اتحاد مجلس کے فقدان ہونےکی وجہ سےنکاح درست نہ ہوگا
مثلا ویڈیو کا لنگ میں فریقین ایک دوسرے کو اچھی طرح دیکھ کر مطمئین ہو لیں اور اسی کالنگ میں عورت نکاح خاں کو اپنے نکاح کا وکیل بنادے ،پھر وکیل ایجاب کرکے دو گواہو ں کے سامنے مرد کو قبول کرادے
جب فون پر یہ نکاح باالتوکیل صحیح ہے تو ویڈیو کالنگ کے ذریعہ نکاح باالتوکیل کیوں کر صحیح نہیں ہوگا؟(فتاوی فیض الرسول،ج اول، ص،١٤/١٥،بحوالہ فتاوی عالمگیری)
بلفظ دیگر، موبائل فون وغیرہ سے اس طرح نکاح ہوسکتا ہے کہ لڑکی یا لڑکا ان کے ذریعہ نکاح پڑھانے والے کو اپنے نکاح کا وکیل بنادے اور وہ وکیل ایجاب یا قبول کرلے تو نکاح ہوجائے گا۔ مثلا نکاح خواں عالم نے لڑکی سے فون پر کہا کہ کیا تم نے مجھ (فلاں بن فلاں عالم) کو پچیس ہزار روپیے مہر پر فلاں بن فلاں کے ساتھ اپنا نکاح کردینے کا وکیل بنایا؟
لڑکی اس کے جواب میں کہے”ہاں”۔اب وہ وکیل گواہوں کی موجودگی میں دولھا سے بطریق معروف ایجاب کرے اور دولھا منظور کرے تو نکاح ہوجائے گاـ (ھکذا فتاوی فیض الرسول ج،١ص،٥٥٩)
واللہ تعالی اعلم بالصواب
کتبـــــہ؛ حضرت علامہ مولانا محمد منظــــور عالم قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالی والنورانی استاد دارالعلوم اہلسنت معین الاسلام چھتونہ میگھولی کلاں مہراجگنج (یوپی)
0 Comments
ایک تبصرہ شائع کریں