السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ اگر کوئی قرض دار ہے اور وہ قربانی کرے  تو کیا  اس کی قربانی نہیں ہوگی حوالے کے ساتھ جلد سے جلد جواب عنایت فرمائیں کرم ہوگا؟ ســـائل رضــوان احـمـد اسماعیـلی سدھارتھ نگـر یوپی

وعلیکم السلام ورحمۃاللہ وبرکاتہ
بسـم اللہ الرحمٰـن الرحـیم
الجــوابـــــــــــ بعون الملک الوہاب
صورت مسٶلہ میں جس کے ذمہ قرض ہو اس پر قربانی واجب نہیں مگر قربانی کرے گا تو نفل ہوگا قربانی کی دو قسمیں ہیں ایک واجب جیسے مالک نصاب پرقربانی یا منت کی قربانی دوسرا تطوع یعنی نفل واماالتطوع فاضحیة المسافر والفقیر الذی لم یوجد منہ النذر بالتضحیة ولا شراء الا ضحیة لانعدام سبب الوجب اھ ( فتاوی ہندیہ جلد ۵ صفحہ ۲۹۱)
جن پر قرض ہو اس کےلئے بہتر یہ ہے کہ پہلے قرض ادا کرے کہ یہ حقوق العباد ہے (فتاوی اکرمی صفحہ ۳۱۹ تا ۳۲۰)

مذکورہ حوالہ سے معلوم ہوا کہ  مقروض کا قرض اتنا ہیکہ قرض ادا کیا جائے تو نصاب باقی نہ رہے گا تو قربانی واجب نہیں لیکن قرض ادا کرنے کے بعد بھی نصاب باقی رہا تو قربانی واجب ہے اور اگر مقروض شخص اگر قربانی کرتاہے تو قربانی ہوجاٸگی مگر نفل ہوگی

واللہ تعالی اعلم بالصواب
کتبـــــہ؛ غلام حضور تاج الشریعــــہ خاک پائے علماء و آئمہ محمد راحت رضا نیپالی صاحب قبلہ