السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ 
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و شرع متین مسئلہ کیا عقیقہ کا گوشت بیچ کر کے اس کی قیمت مدرسہ میں  لگا سکتے ہیں ؟ رہنمائی فرمائیں ۔ المستفتی : صاحب محمد نسیم 

وعلیکم السلام و رحمۃ اللّٰہ و برکاتہ
 جواب " عقیقہ کا گوشت اور کھال بیچ کر اس کے پیسے کو اپنی ذات یا اپنے بال بچوں پر خرچ کرے گا تو بیچنا جائز نہیں  اور اگر کسی کار خیر کی نیت سے بیچی تو جائز ہے مثلا مسجد و مدرسہ میں خرچ کرے گا کیونکہ جو حکم قربانی کے گوشت اور کھال کا ہے وہی حکم عقیقہ کے گوشت اور کھال کا ہے تو جس طرح قربانی کا گوشت اور کھال کو ایسی چیزوں کے عوض بیچنا جائز ہے جس کو باقی رکھتے ہوئے اپنے کام میں لائے جیسے چلنی ، مشکیزہ اور کتاب وغیرہ البتہ کسی ایسی چیز کے عوض بیچنا جائز نہیں جس کو ختم کر کے فائدہ اٹھائے جیسے روپیہ پیسہ ، چاول ، روٹی وغیرہ جیسا کہ فتاوی عالمگیری میں ہے کہ " وَ لَا يَبِيعُهُ بِالدَّرَاهِمِ لِيُنْفِقَ الدَّرَاهِمَ عَلَى نَفْسِهِ وَ عِيَالِهِ و اللَّحْمُ بِمَنْزِلَةِ الْجِلْدِ فِي الصَّحِيحِ حَتَّى لَا يَبِيعَهُ بِمَا لَا يُنْتَفَعُ بِهِ إلَّا بَعْدَ الِاسْتِهْلَاكِ . وَ لَوْ بَاعَهَا بِالدَّرَاهِمِ لِيَتَصَدَّقَ بِهَا جَازَ ؛ لِأَنَّهُ قُرْبَةٌ كَالتَّصَدُّقِ ، كَذَا فِي التَّبْيِينِ. وَهَكَذَا فِي الْهِدَايَةِ وَ الْكَافِي " اھ یعنی اور اسے دراہم کے بدلے میں اس لئے نہیں بیچ سکتا کہ یہ دراہم اپنے اوپر یا اپنے عیال پر خرچ کرے گا اور صحیح قول کے مطابق ( قربانی کا ) گوشت بھی کھال کے حکم میں ہے حتی کہ اسے ایسی چیز کے عوض نہیں بیچا جائے جسے ہلاک کرنے کے بعد ہی اس سے نفع حاصل کیا جاتا ہو اور اگر اسے دراہم کے عوض اس لئے بیچا کہ اسے صدقہ کرے گا تو یہ جائز ہے کیونکہ یہ ایسی ہی قربۃ ہے جیسے صدقہ کرنا ایسا ہی تبیین  میں ہے اور ایسا ہی ہدایہ اور کافی میں ہے " اھ ( فتاوی عالمگیری ج 5 ص 301 :  کتاب الاضحیۃ ، مطبوعہ دار الفکر بیروت )

اور در مختار میں ہے کہ " فإن بيع اللحم أو الجلد به أي بمستهلك أو بدراهم تصدق بثمنه " اھ یعنی پس اگر گوشت کو یا کھال کو ہلاک ہونے والی چیز کے عوض یا دراہم  کے عوض بیچا تو اس کا ثمن صدقہ کیا جائے گا " اھ ( در مختار ج 9 ص 475 : کتاب الاضحیۃ ، دار الکتب العلمیہ بیروت )

اور بدائع صنائع میں ہے کہ " وَ لَا يَحِلُّ بَيْعُ جِلْدِهَا وَ شَحْمِهَا وَ لَحْمِهَا وَ أَطْرَافِهَا وَ۔رَأْسِهَا وَ۔صُوفِهَا وَ شَعْرِهَا وَ وَبَرِهَا وَ لَبَنِهَا " اھ یعنی اور بیچنا جائز نہیں ہے اس کی کھال کو اور اپنے اس کی چربی کو اور اس کے گوشت کو اور اس کے  کھروں کو  اور اس کے سر کو اور اس کی اون کو اور اس کے بالوں کو اور اس کے اون اور اس کے دودھ کو " اھ ( بدائع صنائع ج 5 ص 81 : کتاب التضحیۃ ، دار الکتب العلمیہ بیروت )

اور ھدایہ میں ہے کہ " و اللحم بمنزلة الجلد في الصحيح، فلو باع الجلد أو اللحم بالدراهم أو بما لا ينتفع به إلا بعد استهلاكه تصدق بثمنه ، لأن القربة انتقلت إلى بدله " اھ یعنی اور صحیح قول کے مطابق ( قربانی کا ) گوشت بھی کھال کے حکم میں ہے تو اگر کھال یا گوشت کو دراھم کے کے عوض یا ایسی چیز کے عوض بیچا جسے ہلاک کرنے کے بعد ہی اس سے نفع حاصل کیا جاسکتا ہے تو اس ( کھال یا گوشت ) کا ثمن صدقہ کیا جائے گا کیونکہ قربۃ ( نیکی ) اس کے بدل کی طرف منتقل ہوگئی ہے " اھ ( ھدایہ ج 4 ص 360 : کتاب الاضحیۃ ص 360 ، دار الاحیاء التراث العربی ) 

اور فتاوی رضویہ میں ہے کہ " کھال اگر اپنے خرچ میں لانے کی نیت سے داموں کو بیچی تو وہ دام تمام خیرات کرے ، یعنی فقیر محتاج مصرف زکوٰۃ کو دے ، سید کو نہیں دے سکتا ، اور اگر سید کو دینے کی نیت سے بیچی تو وہ دام سید کو دے " اھ ( فتاوی رضویہ ج 20 ص451 : رضا فاؤنڈیشن لاہور )

اور اسی میں ہے کہ " قربانی کی کھال کو بہ نیت تصدق فروخت کرنا جائز ہے کہ تصدق کے لئے بیچا یا مسجد کےصرف میں لانا دونوں قربت ہیں ، اور یہاں وہی مقصود ہے ۔ اور مزید فرماتے ہیں کہ " البتہ یہ ناجائز ہے کہ اپنے یا اپنے اہل و عیال اور اغنیاء کے صرف میں لانے کو گوشت یا کھال یا کسی جز کو بعوض ایسی اشیاء کے فروخت کرے جو استعمال میں خرچ ہو جائیں اور باقی نہ رہیں جس طرح روپیہ پیسہ یا کھانے پینے کی چیزیں یا تیل پھلیل وغیرہ کہ ان کے عوض اپنی نیت سے بیچنا تمول  ہے " اھ ( فتاوی رضویہ ج 20 ص466/ 467 : رضا فاؤنڈیشن لاہور )

اور بہار شریعت میں ہے کہ " اگر قربانی کی کھال کو روپے کے عوض میں  بیچا مگر اس لئے نہیں کہ اس کو اپنی ذات پر یا بال بچوں پر صرف کرے گا بلکہ اس لئے کہ اسے صدقہ کر دے گا تو جائز ہے ۔ جیسا کہ آج کل اکثر لوگ کھال مدارس دینیہ میں دیا کرتے ہیں اور بعض مرتبہ وہاں کھال بھیجنے میں دقت ہوتی ہے اسے بیچ کر روپیہ بھیج دیتے ہیں یا کئی شخصوں کو دینا ہوتا ہے اسے بیچ کر دام ان فقراء پر تقسیم کر دیتے ہیں یہ بیع جائز ہے اس میں حرج نہیں اور حدیث میں جو اس کے بیچنے کی ممانعت آئی ہے اس سے مراد اپنے لئے بیچنا ہے ۔ گوشت کا بھی وہی حکم ہے جو چمڑے کا ہے کہ اس کو اگر ایسی چیز کے بدلے میں بیچا جس کو ہلاک کر کے نفع حاصل کیا جائے تو صدقہ کرے ۔ قربانی کی چربی اور اس کی سری ، پائے اور اون اور دودھ جو ذبح کے بعد دوہا ہے ان سب کا وہی حکم ہے کہ اگر ایسی چیز اس کے عوض میں لی جس کو ہلاک کر کے نفع حاصل کرے گا تو اس کو صدقہ کر دے " اھ ( بہار شریعت ج 3 ص 348 : قربانی کے جانور کا بیان )

واللہ اعلم بالصواب
کتبہ؛ کریم اللہ رضوی خادم التدریس دار العلوم مخدومیہ اوشیورہ برج جوگیشوری ممبئی