السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتـــہ
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ اگر کسی نے چاند کی شہادت خط یا موبائل کے ذریعے خبر دی تو اس چاند کی خبر کو ماننا یا اس جیسی خبر پر عمل کرنا کیسا ہے جواب عنایت فرمائیں مہربانی ہوگی؟ سائل محمد عبدالاول نوری حسنی

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتـہ
الجواب بعون الملک الوہاب

موبائل یا خط و کتابت کے ذریعے اگر کوئی شخص چاند کی شہادت دے تو ہرگز نہ مانی جائے گی۔ اور نہ ہی اس پر عمل کیا جائے گا۔ اسلئے کہ۔ خط و کتابت و موبائل ریڈیو وہاٹسپ ، فیس بک ، ٹیلی گرام ٹویٹر ، میسنجر وغیرہ سے موصول ہونے والی خبر کا شرع شریف میں کچھ اعتبار ہی نہیں ہے۔ کیونکہ یہ نہ رؤیت ہے اور نہ ہی شہادت، بلکہ یہ ایک طرح کی فقط خبر ہے۔  جبکہ ثبوت ہلال کا دار و مدار فقط رؤیت ہلال اور مشاہدہ پر ہی ہے۔ اور عمل  بھی اسی پر کیا جائے گا۔

چنانچہ حضور اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان محقق بریلوی علیہ الرحمۃ والرضوان تحریر فرماتے ہیں کہ۔ دربارہ ہلال خط و تار محض بے اعتبار، اشباه والنظائر ، میں ہے لا يعتمد  على الخط ولا يعمل به ( خط پر نہ تو اعتماد کیا جائے ، نہ ہی اس پر عمل کیا جائے۔ مخبر واحد اور کچہری کے مختار اور وہ بھی محض حکایت و اخبار کہ دو شاہد عدل بھی ایسی حکایت کرتے تو اصلاً معتبر نہ تھی۔ (اشباہ والنظائر کتاب القضاء والشہادات والد عاوی ادارۃ القرآن والعلوم الاسلامیه کراچی  ١/ ٣٣٧. بحوالہ فتاوی رضویہ شریف جلد دہم (۱۰) صفحہ (۴۰۵) المكتبة رضا فاؤنڈیشن لاہور)

اور ، حضرت علامہ مفتی عبد المنان اعظمی دامت برکاتہم العالیہ ، تحریر فرماتے ہیں کہ۔ ثبوت ہلال کا دار و مدار رویت ہلال اور مشاہدہ پر ہے۔ مزید اسی میں آگے تحریر فرماتے ہیں کہ۔ ریڈیو ، ٹیلی ویژن ، تار ، ٹیلیفون اور خط وغیرہ کی خبر ان پر روزه یا عید منانا جائز نہیں۔ (فتاوی بحـر العلوم جلد دوم (۲) کتاب الصوم صفحہ (۲۴۰ // ۲۶۱) المكتبة شبیر برادرز اردو بازار لاہور)

اور فقیہ ملت حضرت علامہ مفتی محمد جلال الدین احمد امجدی علیہ الرحمۃ والرضوان تحریر فرماتے ہیں کہ۔   خط کے ذریعے اگر رویت ھلال کی اطلاع ملے تو عندالشرع معتبر نہیں اس لیے کہ ایک تحریر دوسری تحریر سے مل جاتی ہے لہٰذا اس سے علم یقینی حاصل نہیں ہوتا یہی وجہ ہے کہ خط کے ذریعے کچہری میں گواہی نہیں لی جاتی ردالمختار میں ہے لا یعمل بالخط اور ھدایہ میں ہےالخط یشبہ الخط فلا یعتبر اور تار ٹیلیفون تو بے اعتباری میں خط سے بڑھ کر ہیں اس لیے کہ خط میں کم از کم کاتب کے ہاتھ کی علامت ہوتی ہے تار اور ٹیلیفون میں وہ بھی مفقود ہے نیز گواہ جب پردے کے پیچھے ہوتا ہے تو گواہی معتبر نہیں ہوتی اس لیے کہ ایک آواز دوسری آواز سے مل جاتی ہے تو تار اور ٹیلیفون کے ذریعے گواہی کیسے معتبر ہو سکتی ہے فتاوی عالمگیری میں ہے لو سمع من ورا ٕ الحجاب لا یسعہ ان یشھد لاحتمال ان یکون غیرہ اذالنغمة تشبہ النغمة اور ریڈیو و ٹیلی ویزن میں تار اورٹیلیفون سے زیادہ دشواریاں ہیں اس لیے کہ تار و ٹیلیفون پر سوال و جواب بھی کر سکتے ہیں مگر ریڈیو ٹیلی ویژن پر کچھ نہیں کر سکتے غرض یہ کہ نٸے آلات خبر پہنچانے میں کام آسکتے ہیں لیکن شھادتوں میں معتبر نہیں ہو سکتے (فتـاوی فیض الرسـول جلد اول (١) کتاب الصوم صفحہ (۵۲۷) المكتبة شبیر برادرز اردو بازار لاہور)

حضور اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان محقق بریلوی علیہ الرحمۃ والرضوان، نے اثبات ہلال کے سات طریقے تحریر فرماۓ ہیں۔ آپ تفصیل وہاں سے دیکھ لیں۔ (فتاوی رضویہ شریف  جلد دہم۔ صفحہ  (٤٠٨) رساله طرق اثبات بلال ، المكتبة رضا فاؤنڈیشن لاہور)

کتبہ؛ محمـد اربـاز عـالــم نظامـی تـرکپٹی کوریاں کشی نگر یوپی الہند مقیم حال بریدہ القصم سعودیہ عـربیۃ رابطــــہ

الجــواب‌ صحـــیـــــح
فقیـر محـمـد اسمــاعیــل خـــان امجـــدیؔ عفـی عنــہ گونڈوی