اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ‎ 
کیا فرما تے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ میں کہ تعزیہ کے سامنے فاتحہ پڑھنا کیساہے؟؟ حوالے کے ساتھ جواب عنایت فرمائیں۔ ســائل فقیـر محمد فیضان رضا اسمیلی سدھارتھنگر

وَعَلَيْكُم السَّلَام وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ
بسـم اللـہ الرحـمٰن الرحـیم
الجــوابـــــــــــ بعون الملک الوہاب
تعزیہ کے سامنے فاتحہ پڑھنا نا جائز و حرام ہے۔
جیساکہ فتاویٰ فقیہ ملت میں کہ" ان تاریخوں میں تعزیہ داری کرنا، چوک پر تعزیہ کے سامنے کچھ رکھ کر نیاز فاتحہ دلانا، تعزیہ کو گاؤں وگلی کوچوں میں گھمانا، ماتم کرنا، ڈھول، تاشے طرح طرح کے باجے بجانا بجوانا، کھیل تماشہ کرنا، مصنوعی کربلا کو جانا، جلوس میں مردو عورت کا باہم خلط ملط ہونا، عورتوں کا مرثیے گانا، ان کا تعزیہ پر مورچھل مارنا، منت مانگنا اور کسی مرد یا عورت پر بابا کی سواری کا آنا، یہ سب باتیں خرافات و بدعات اور سخت ناجائز و حرام ہیں۔ شریعت میں ان کی کوئی اصل وحقیقت نہیں۔اور ایساکرنے والے سخت گنہگار مستحق عذاب نار ہیں۔“ (فتاویٰ فقیہ ملت، جلداول، باب العقائد، ص٥۹۔)

اور فتاوی رضویہ میں ہے کہ علم، تعزیے، مہندی، ان کی منت، گشت، چڑھاوا، ڈھول، تاشے، مجیرے، مرثیے، ماتم، مصنوعی کربلا کو جانا، عورتوں کا تعزیے دیکھنے کو نکلنا، یہ سب باتیں حرام و گناہ و ناجائز و منع ہیں۔ فاتحہ جائز ہے روٹی، شیرینی، شربت جس چیز پر ہو، مگر تعزیہ پر رکھ کر یا اس کے سامنے ہونا جہالت ہے اور اس پر چڑھانے کے سبب تبرک سمجھنا حماقت ہے۔ ہاں! تعزیہ سے جدا جوخالص سچی نیت سے حضرات شہداےکرام رضی اللہ عنہم کی نیاز ہو وہ ضرور تبرک ہے۔“ (فتاویٰ رضویہ، جلد۲۴، ص ۴۹۸۔ مطبوعہ: جدید۔)

واللــہ تــــــعالیٰ اعلـم بالصــواب
کتبـــــہ؛ خاکسار: محمد پیغام رضا بانکا (بہار)

الجـــواب صحیح والمجیبـــ نجیح
خبیب القادری ارشدی مدناپوری صاحب قبلہ مدظلہ